🔘نکاح کا رشتہ اور اولاد کی تربیت🔘 



یہ جو نکاح کا رشتہ ہے اس میں بڑی طاقت ہے، دو انجانے لوگ بھی جب اس رشتے میں اس بندھن میں بندھ جاتے ہیں تو قدرت دونوں کے دل میں محبت ڈال دیتی ہے.


اس خوبصورت رشتے کو چھوٹی چھوٹی غلط فہمیاں، ضد اور انا دیمک کی طرح چاٹ کر بوسیدہ کر دیتے ہیں.

یہ وہ رشتہ ہے جس میں ایک دوسرے کی خامی پر فقرے کسنا زیب نہیں دیتا اور اپنی کسی صلاحیت یا خوبی پر دوسرے کو طنز کا نشانہ بنا کر احساسِ کمتری کا شکار کر کے اسے نیچا دکھانے کی کوشش کرنا احمقانہ بات ہے.

اگر ایک دوسرے کا لباس کہا گیا ہے تو اس رشتے میں جڑنے والے دونوں افراد کی صلاحیت، خوبی، اچھائی اور برائی بھی ایک دوسرے کی ہے...


ایک دوسرے کو کمزور مت کریں ایک دوسرے کی طاقت بنیں اور آگے بڑھتے چلے جائیں...

آپ ایک کشتی میں سوار ایک ہی منزل کے مسافر ہیں جن کے راستے بھی یکساں ہیں اور ساز و سامان بھی مشترک ہیں.

یہ رشتہ بہت ہی خوبصورت ہے.

ایسے حالات پیدا مت کریں کہ دونوں میں سے کسی ایک کو سمجھوتہ کرنا پڑے کیونکہ سمجھوتہ ایکسپریس کی گاڑی زیادہ عرصہ تک نہیں چلتی.

اور یہ سمجھوتہ اس رشتے کی خوبصورتی کو ختم کر کے اس رشتے کا حسن کھا جاتا ہے...

ایک دوسرے کو عزت دیں تو آپ کو معلوم ہوگا کہ یہ رشتہ کس قدر مضبوط اور خوبصورت ہے...

ایک دوسرے کا اعتماد بنیں...

مشکل وقت بھی آتا ہے لیکن اگر آپ ایک دوسرے کو عزت دیتے ہیں، احترام کرتے ہیں اور محبت کرتے ہیں تو ساری مشکلات ہنستے مسکراتے گزر جاتی ہیں اور اچھا وقت مقدر بن جاتا ہے.

اس رشتے کی مضبوطی آپ کی آنے والی نسلوں کے مستقبل کا فیصلہ کرتی ہے..

والدین کی آپس کی ناچاقی اولاد کے مستقبل کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے.

میری تحقیق اور تجربے کے مطابق ہمیشہ ان والدین کے بچے زندگی کے ہر میدان میں صف اول رہتے ہیں جن والدین کے جھگڑے کی خبر اولاد کو نہیں ہوتی.

میرے ایک دوست جو اس وقت ایک اچھی پوسٹ پر ہیں مجھے اپنی کامیاب ازدواجی زندگی کا راز کچھ یوں بتاتے ہیں کہ میرے والدین ان پڑھ تھے.

کبھی سکول کا منہ تک نہیں دیکھا تھا لیکن ایک عادت جو باکمال تھی وہ یہ کے میرے والد صاحب کو اگر کسی بات پر غصہ آتا تھا یا اگر والد صاحب باہر سے آتے تھے تو بچوں کو بیٹھا دیکھ کر مسکرا دیتے تھے اور میری والدہ سے کہتے کہ کمرے میں آئیں آپ سے ضروری بات کرنی ہے...

میری والدہ کمرے میں جاتیں اور واپسی پر دونوں مسکراتے ہوئے باہر آتے تھے...

اگر ہم پوچھتے کیا ہوا تھا؟

تو دونوں کا جواب ہوتا تھا کہ کچھ بھی نہیں بس ایک ضروری بات کرنی تھی...

عمر گزرنے کے ساتھ ساتھ ہمیں اس بات کا علم ہوا کہ دونوں کا جھگڑا بند کمرے میں ہوتا ہے جس کی آواز تک بھی باہر نہیں آتی..........

جب میری شادی ہوئی تو میں نے بھی اپنے والد صاحب کی اسی عادت کو اپنایا اور میری ازدواجی زندگی بہت خوشگوار گزر رہی ہے...... الحمداللہ 🌹.

اور میرے بچے ہر میدان میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں..


اس واقعے سے میری اس تحقیق میں مزید اضافہ ہو گیا کہ بچے ہمیشہ والدین سے سیکھتے ہیں.... 

بچوں کی تربیت میں والدین کا عکس جھلک رہا ہوتا ہے. آپ جو کریں گے آپ کا بچہ بھی ویسا کرے گا کیونکہ آم کے پیڑ پر امرود کا پھل کبھی نہیں لگتا......

اپنے باہمی رشتے کو مضبوط کریں. اس رشتے کی مضبوط جڑ آپ کی اولاد کا پھل میٹھا کرے گی.

اس رشتے کی کمزوری آپ کی نسلیں تباہ کر دے گی اور آپ کا بڑھاپا بہت مشکل ہو جائے گا....

چھوٹی چھوٹی باتوں کو اتنا طول مت دیا کریں کے اس کے اثرات آپ کی اولاد کی ناکامی کی صورت میں نکلیں.

اچھی اولاد ہمیشہ اچھے والدین کی نشانی ہوتی ہے.

بچوں کو نصیحت کرنا چھوڑ کر عملی مظاہرہ کرنا شروع کر دیں گے تو آپ کو نصیحت کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئے گی آپ کا بچہ خود ہی آپ کو دیکھ کر ان عادات کو اپنی زندگی میں شامل کر لے گا....

میں نے کاونسلنگ کے دوران اور لیکچرز کے دوران بچوں کے نتائج پر مرتب ہونے والے منفی اثرات میں والدین کے جھگڑے کو سر فہرست پایا.....

ایسے بچوں کی کارکردگی ہمیشہ والدین کے جھگڑے کی وجہ سے متاثر ہوتی ہے کیونکہ بچہ ان معاملات کا بہت گہرا اثر لیتا ہے خاص طور پر بیٹیاں کیونکہ وہ باہر نہیں نکل سکتیں...

دوسری وجہ یہ ہے کہ اس وجہ سے بچیوں کے دل میں ازدواجی زندگی کا خوف بیٹھ جاتا ہے اور وہ شادی کا سوچ کر بھی ڈر جاتی ہیں....

اس طرح آپ کے بچے تنہائی کا شکار ہو کر سٹریس میں مبتلا ہو جاتے ہیں.....

آخر میں ڈاکٹر صداقت علی صاحب کی بات کہ


"کوشش کریں اپنے بچوں پر ہاتھ مت اٹھایا کریں کیونکہ ایسا کرنے سے وہ اگر بیٹا ہے تو ہاتھ اُٹھانے والا بنے گا یعنی مارنے والا بنے گا اور اگر بیٹی ہے تو مار کھانے والی بنے گی"

Comments

Popular posts from this blog